غزل
Ghazal
لفظ غزل 'غزال 'سے نکالا ہے جس کے معنیٰ 'ہر ن' کے ہیں۔ کہا جاتا ہے جب ہرن بڑا ہوجاتا ہے تو اُس کے باف کے نیچے سے ایک خوشبو نکلتی ہے ہر ن اس خوشبو کو پانے کی تلاش میں گھومتا پھرتا رہتا ہے اسی لئے وہ کھبی صحراؤں میں ،کھبی بیابانوں میں ،کھبی مرغزاروں میں،کھبی خاک زاروں میں،کھبی گلستانوں میں،کھبی اِدھرکھبی اُدھر،مگر اُسے یہ خوشبو کہیں نظر نہیں آتی ہےچونکہ یہی جستجو وتلاش غزل میں پائی جاتی ہے اسی لئے غزل کو غزل کہاجاتاہے
غزل کےلغوی معنی ہیں عورتوں کے ساتھ باتیں کرنے کے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں غزل اُن چند اشعار کو کہتےہیں جو ایک ہی وزن اور ایک ہی قافیے میں ہو ۔ غزل کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں اسے "مطلع"کہتے ہیں مطلع کے بعد والے شعر سے پہلے مصرعے میں قافیہ کی قید نہیں رہتی۔اگر اس پہلے مصرعہ میں بھی قافیہ کی قید کی جائےتو اُسے ''حُسن مطلع"یا زیبِ مطلع " کہتے ہیں آخری شعر میں شاعر اپنا تخلص پیش کرتا ہے اُسے "مقطع" کہتے ہیں جس غزل میں ردیف نہ ہو اورصرف قافیے ہو اس کو "غیر مُردف" کہتے ہیں غزل کے ہر شعرکا مطلب جُداگانہ ہوتا ہے مگر ایسی غزلیں بھی ہیں جو ایک ہی مضمون کو پیشِ نظر رکھ کرکہی جاتی ہیں ایسی غزل کو "غزل مسلسل"کہا جاتاہے غزل کا سب سے اچھا شعر "بیت الغزل" یا "شاہ بیت " کہلاتا ہےجس طرح غزل میں مضامیں کی کوئی قید نہیں کی جاتی ہے اسی طرح غزل کے اشعار کی تعدار مقررنہیں عام طورپرپانچ اشعار سے انیس اشعار تک کی غزلیں کہی جاتی ہیں لیکن کئی غزلیں اس سے بھی زیادہ اشعار میں مل جاتی ہیں غزل کی زبان نرم ،شیرین اور شستہ کا ہونا ضروری ہے مشکل الفاط اور ترکیبیں غزل کے لئے جائز نہیں سمجھی جاتی ہیں
الغرض غزل اردو شاعری کی سب سےزیادہ عام پسند اور محبوب صنف ہے پروفیسر اشید احمد صدیقی نے غزل کےبارے میں یوں کہا ہے کہ"غزل اردوشاعری کی آبرو" ہے اردو غزل کےآسماں پر جن شاعروں نے اپنے نام چمکائے اُن میں شاعرِاول امیرِخسروؔ،میرتقی میرؔ،اسداللہ خان ،غالب ،آتش ،سودا،وغیرہ قابلَ ذکرہیں
If you have any doubt, suggestion or question, feel free to contact us.