طلباء کے فرائض
کسی بھی ملک میں نوجوانوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ وہی آگے چل کر ملک کی ترقی کے لئے کام کرتے ہیں۔ خواہ کسان ہوں خواہ کاریگر ہوں یا مزدور ہوں۔ لیکن ان میں زیادہ اہمیت ان نوجوانوں کی ہوتی ہے جو علم کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں کیونکہ علم وہ ہتھیار ہے جس سے بڑے بڑے معرکے سر کئے جاتے ہیں۔ لہٰزاوہ نوجوان جو پڑھے لکھے ہوتے ہیں ان پر ملک کی ترقی اور بہبودی کی زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ کیونکہ وہی مستقبل میں ملک کے رہنما بنیں گے۔ ان پر سماج کی بہتری اور ترقی کا انحصار ہے۔ انہی نوجوانوں پر ملک اور ملک اور قوم کی ترقی اور آزادی کی ذمّہ داری ہوتی ہے۔
اس روشنی میں ملک کے ہر طالب علم نوجوان کو اپنی بھر پور ذمہداری کا احساس ہونا چاہئیے۔ اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سچّی لگن ہونی چاہئیے اور اس ذمّہ داری کو پورا کرنے کے لئے سب سے پہلے انہیں اپنے سوچنے سمجھنے کی طاقت کو دیکھنا چاہئیے۔ تاکہ وہ اپنی فطری صلاحیتوں سے کوئی غلط کام نہ کر بیٹھیں جس سے ملک اور قوم کو نقصان کا منہ دہکھنا پڑے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے وقت کی قدر کریں۔ کیونکہ ـ
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
اسے کھو کے انسان پاتا نہیں
ہر انسان کا چاہے وہ پڑھا لکھا ہو چاہے جاہل ہو اس کا اپنے ملک کے ذرّے ذرّے پر حق ہوتا ہے کہ وہ چاہے جس طرح اس کو استعمال کرے۔ لیکن ہر باشندہ کو جہاں اپنا حق جتانا ہے وہیں اس کا ملک اور قوم کے لئے فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک اور قوم کی حفاظت کرے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کے دور میں انسان اپنے حق کو مانگتا ہے لیکن فرض کو بلکل بھولا ہوا ہے۔ لوگ شاید یہ نہیں جانتے کہ جب تک وہ اپنا فرض پورا نہیں کریں گے تو ان کو ان کا حق کیسے مل سکے گا۔ وہی اپنے فرض کے بھی مالک ہیں اور اپنے حق کے بھی مالک ہیں۔ اس لئے اگر فرض ادا کیا گیا تو حق خود بخود مل جائے گا۔
طلباء کے فرائض اور ذمہ داریوں کو تین حصّوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ پہلی ذمہ داری وہ جو خود ان کے اپنے لئے یعنی تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسری ذمہ داری کنبہ کے لئے ان پر آتی ہے تیسری وہ ذمہ داری جس کے فرائض جوان ہونے کے بعد اپنے ملک اور قوم کے لئے ادا کرنی ہوتی ہے
ان سب سے پہلے ان کو چاہئے کہ وہ اپنی صحت کو قائم رکھنے کی کوشش کریں کیونکہ کمزور جسم میں صحت مند دماغ نہیں ہو سکتا۔ اور تندرستی کو قائم رکھنے اور دماغ کو مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر طالب علم اپنے اسکول زمانہ میں کھیل کود میں بھی حصّہ لے۔ لیکن اس طرح کہ پڑھائی کے وقت پڑھائی کے وقت پڑھائی اور کھیل کے وقت کھیل۔ اس کے علاوہ ایک بہت اہم فرض طالب علم کا یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کردار کا ستون بنائے۔ اور کردار کے مستحکمی کے لئے ضروری ہے کہ طالب علم شروع ہی سے اپنے کردار کی پختگی کو قائم رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ کردار اسی وقت مضبوط ہوگا جب طالب علم یا دوسرے بھی اس طرف بچپن سے رجوع کریں۔
اس کے بعد دوسری اہم بات تعلیم کی طرف توجہ دینے کی ہوتی ہے اگر طالب علم نے لگن اور رغبت کے ساتھ علم کو تحصیل کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنی زندگی میں کامیابی ضرور حاصل کرے گا۔ اگر تعلیم سے غفلت برتی گئی تو نقصان ہوگا۔ ساتھ ہی ہر طالب علم کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے والدین۔ اپنے بزرگوں اور اپنے استادوں کی عزّت کریں۔ لیکن افسوس کہ دورِ حاضرہ میں طلباء استاد کا احترام تو کیا کرتے ان کی توہین بے شک کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ سماج کے ساتھ بھی دشمنی کرتے ہیں کیونکہ سماج کی تعلیم یہ سب کرنے کو نہیں کہتی جو آج کا طالب علم توہین آمیزی کرتا ہے۔ ہر طالب علم کو مہزب، فرمانبردار اور با اخلاق ہونا چاہئے۔
سماجی ترقی اور بہبودک کی ذمہ داری ہر نوجوان کیا بلکہ ہر فرد پر واجب نہیں بلکہ فرض ہے خواہ وہ بڑھا لکھا ہو خواہ جاہل ہو اخلاقی قدریں بڑی عظیم ہوتی ہیں اور انہی قدروں سے سماج میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے ایک دوسرے کی ضرورتوں لا خیال کرنے کا جزبہ پیدا کر سکتے ہیں۔ دیہات میں رہنے والے طلباء کے لئے سماجی خدمات کا زیادہ موقع فراہم ہے وہ وہاں تعلیم کی کمی کو پورا کرنا، تو ہم پرستی کو روکنا، صفائی کا انتظام کرنا، بچپن کی شادیوں کو روکنا ایسے کام ہیں جس کو وہ اپنی علمی مدد سے خوش اسلوبی سے کر سکتے ہیں۔
آج کل ایک خرابی یہ بھی پیدا ہوگئی ہے کہ سیاسی جماعتیں ان کو آلۂ کار بنا کر حکومت کے خلاف نعرے بازی کراتی ہیں۔ جس کا اثر انکی آئندہ ترقی پر پڑتا ہے۔ اس لئے طالب علم کو اپنی زندگی کا راستہ کھوٹا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ انسان کو آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کا موقع زندگی کے اسی نوجوانی کے دور میں ملتا ہے اگر اس نے اس کو کھو دیا تو بیڑا غرق۔ کیونکہ ایک بڑی خوبصورت مثل ہے کہ " سکھائے پوت دربار نہیں چڑھتے"۔
If you have any doubt, suggestion or question, feel free to contact us.