Type Here to Get Search Results !

Advertisement

Paranday Ki Faryaad

 Paranday Ki Faryaad

پرندے کی فریاد

علامہ محمد اقبال

JandK BOSE


تعارف

نظم " پرندے کی فریاد" علامہ محمد اقبال کی ایک مشہور نظم ہے۔ اس نظم کو پڑ کر ہم میں دوسروں کے درد کا احساس ہوتا ہے۔ خاص کر اُن کا جو اپنے پیاروں سے دور قید خانوں میں بنا کسی جرم کئے سالوں سے بند ہیں۔ 

اشعار کی تشریع

آتا  ہے  یاد  مجھ  کو  گزرا  ہوا  زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
پرندہ گزرے ہوئے زمانے کو یاد کر کے کہتا ہیں کہ مجھے گزرے ہوئے زمانے میں باغوں کی بہاریں، پرندوں کی چہچہاہٹ بہت یاد آتی ہیں۔
آزادیاں  کہاں  وہ  اب  اپنے  گھونسلے  کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا
شاعر پرندے کی زبان سے کہتا ہے کہ جب سے میں قید ہوا ہو ساری خوشیاں اور آزادیاں کُھو گی۔ جب آزاد تھے تو اپنی خوشی سے اپنے گھونسلے میں اتے اور جاتے تھے۔
لگتی ہے چوٹ دِل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے  آنسووٓں  پر کلیوں کا مسکرانا
پرندہ اس شعر میں گزرے وقت میں باغوں  کی رونقیں بیان کرتا ہے۔ شبنم اور پھولوں کی خوبصورتی یاد آ کر پرندے کے دل پر چُوٹ لگتی ہے۔
وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی موٗرت
آباد   جس   کے   دم  سے  تھا  میرا   آشیانہ
اس شعر میں پرندے کو اپنا محبوب یاد آتا ہیں۔ اپنے محبوب کی پیاری اور معصوم صورت کو بیان کرکے شاعر کہتا ہے کہ مجھے وہ پیاری اور معصوم صورت بہت یاد آتی ہیں جس کے دم سے میرا گھر آباد تھا۔
آتی نہیں صدائیں اُس کی مری قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس  میں
پرندہ اس شعر میں کہتا ہے کہ میرے محبوب کی صدا بھی اس قید خانے میں نہیں آ رہی، کاش میں اس قید سے آزاد ہو جاتا اور اپنے محبوب سے مل پاتا۔
کیا بد نصیب ہوں میں  گھر  کو  ترس  رہا  ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں، میں قید میں پڑا ہوں
پرندہ اپنی قسمت کو کوستے ہوئے کہتے ہیں کہ میں کتنا بد نصیب ہو، میرے سا تھی اپنے وطن میں خوش ہے اور میں قید میں پڑا ہوں 
آئی  بہار،   کلیاں   پھولوں   کو   ہنس  رہی  ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قِسمت کو رو رہا ہوں
پرندہ پہار کا ذکر کر کے کہتا ہے کہ اس بہار میں میرے وطن میں پھول کھلے ہو نگے اور ہر طرف بہار ہی بہار ہوگی لیکن میرے بد نصیب قسمت میں دیکھنا نہیں ہیں۔
اِس   قید   کا    الٰہی    دُکھڑا    کِسے   سناوٓں؟
ڈر ہے یہیں قفس میں، میں غم سے مر نہ جاوٓں
پرندہ قید کی ڈراونی صورت حال بیان کر تے ہوئے کہتے ہے کہ میں کس کو اس قید کا دکُھ سناوٓں مجھے ڈر ہے کہ میں کہی اس دکُھ سے یہی مر نہ جاوٓں
جب سے چمن چھُٹا ہے  یہ  حال  ہو گیا  ہے
دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے
پرندہ کہتا ہے کہ جب سے میں قید ہوا ہوں ، میرا دل صرف اور صرف غم سے برا پڑا ہے۔ غم کے بغیر اور کچھ بھی نہیں ہے۔
گانا اِسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سُننے والے
دُکھتے  ہوئے   دلوں   کی  فریاد  یہ  صدا  ہے
شاعر پرندہ کی زبان بن کر کہتا ہے کہ سننے والے اِسے گانا سمجھ کر خوش نہ ہو جائے، یہ تو دُکھتے دلوں کی فریاد ہیں، ان کی صدا ہے جس کو محصوس کرنے کی ضرورت ہیں۔
آزاد کر دے  مجھ  کو  او  قید  کرنے  والے
میں بے زبان ہوں قیدی تو چھوڑ کر دُعا لے
نظم کے آخری شعر میں پرندہ قید کرنے والے سے گزارش کرتا ہے کہ خدا کے لئے مجھے آزاد کر دے، میں اس کے بدلے بہت ساری دُوائے دو گا۔

ا۔۔۔ فرہنگ


معنی لفظ معنی لفظ
آزادی رہائی پنجرہ قفس
غم کا حال سنانا دُکھڑا سنانا بد قسمتی پر رونا قسمت کو رونا
اختیار میں ہونا۔ قابو میں ہونا بس میں ہونا وہ دل جن کو دُکھ پہنچا ہو دُکھے ہوئے دل
خوبصورت کامنی گھونسلہ آشیانہ
جس وقت جس دم پیاری سی صورت۔ خوبصورت کامنی سی مورت
آوازیں صدائیں باغ چمن
دوٗر ہونا چھُٹنا


ب۔۔۔۔۔سوالات

ا۔  پرندہ کو گزرے ہوئے زمانے کی کون کون سی باتیں یاد آرہی ہیں؟
جواب۔ پرندہ کو گزرے ہوئے زمانے کی بہارئیں، پرندوں کی چہچہاہٹ،پیاری صورت، وغیرہ
ب۔ پرندہ قفس میں کس کی آواز سُننے کی آرزوں کرتا ہے؟
جواب۔ پرندہ قفس میں اپنے محبوب کی آواز سُننے کی آرزو کرتا ہے۔
ج۔ پرندہ، خود کو بد نصیب کیوں سمجتا ہے؟
جواب۔ پرندہ خود کو اس لئے بد نصیب سمجتا ہے کیو نکہ وہ قید میں ہے۔
د۔ پرندے کو اپنے چمن کی کون سی چیزیں یاد آرہی ہیں؟
جواب۔ پرندے کو باغ کی بہاریں،پرندوں کی چہچہاہٹ،شبنم سے سجی ہوئی کلیاں، وغیرہ یاد آ رہی ہیں۔
ر۔ قِسمت کو رونے سے کیا مُراد ہے؟
جواب۔ قسمت کو رونے سے مُراد اپنی بد قسمتی کو رونا ہے۔

ج۔۔۔۔ دئے گئے مصروں کو نثر میں لکھیے

جوابات۔

ا۔ آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
پرندے کو گزرا ہوا زمانہ یاد آتا ہے جس میں وہ آزاد تھا۔
ب۔ لگتی ہے چھوٹ دِل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم اور کلیوں کی خوبصورتی جب پرندے کو یاد آتی ہے تو وہ بہت رنجیدہ ہوتا ہے۔
ج۔ ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں
اس مصرے میں پرندہ آرزو کرتا ہے کاش وہ اپنی مرضی سے قید سے آزاد ہو پاتا
د۔ ڈر ہے یہیں قفس میں، میں غم سے مر نہ جاوٓں
پرندے کو رہائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی، اُسے ڈر ہے کہ وہ اس غم کی وجہ سے کہی قید میں ہی مر نہ جائے۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Advertisement