Type Here to Get Search Results !

Advertisement

نوکروں پر سخت گیری کرنے کا انجام

نوکروں پر سخت گیری کرنے کا انجام

Nukroo Par Sakhet Giri Karnay Ka Anjaam

JandK BOSE


سوال: حالیؔ کےادبی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے اُن کا مقام متعین کیجیے؟
جواب :- مولانا الطاف حسین حالیؔ اُردُو کے پہلے باقاعدہ سوانح نگاراورنقاد تسلیم کئے جاتے ہیں آپ اردو کے بڑے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک بڑے ادیب بھی تھے جس نے مقصدی شاعری کے فن کو برتا اورعروج تک پہیچایا۔آپکے کلام کا مقصد قوم کی اصلاح تھا اس لئے آپ نے سادہ اورآسان الفاظ کا استعمال کیا آپ کا کلام تاثیر سےبھر پور ہے آپ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ادب کو زندگی اوراس کے مسائل سےموڑاآپ کی نظموں میں سادگی ، روانی، یک رنگی اور تسلسل موجود ہے آپ مطری شاعر ی کے بڑے حامی تھے آپ کی نثر نگاری آپ کی نظم نگاری پر سبقت رکھتی ہےآپ نےغالبؔ کامرثیہ لکھ کر شخصی مرثیہ نگاری کو رواج دیا سرسید تحریک نے آپ کی ادبی زندگی کو ایک نئی جلا عطا کی اردو شاعر ی میں نئے راہیں متعین کیں۔"حیاتِ سعدی " یادگارِغالب" اور"حیات جاوید"لکھ کر آپ نے اردو میں سوانح نگاری کی باقاعدہ بنیاد ڈالی ۔اسی طرح" مقدمہ شعروشاعر ی" لکھ کرارود زبان وادب میں مکمل تنقید نگاری کی
 داغ بیل ڈالی الغرض حالیؔ اردو کا بہتریں شاعر ہونے کے ساتھ کافی بلند پایہ نثر نگارہیں
سوال۔ حالیؔ کی حیات کاتذکرہ کیجئے
جواب ـ مولانا الطاف حسین حالی اردو کے پہلے باقاعدہ نقاد اور سوانح نگا رہیںآپ کی پیدائش سرزمیں پانی پت میں 1837ء میں ہوئی آپ کےوالد صاحب کا اسمی گرامی خواجہ ایزد بخش تھا نو برس کی ہی عمر میں باپ کاسایہ سر سے اُٹھ گیاتعلیم تربیت کی ساری ذمہ داری بڑےبھائی کےکندھوں پرپڑی عربی وفارسی میں اعلیٰ تعلیم آن پڑی۔حفظِ قرآن مجید سےبھی سرفراز ہوئے ۔ 1883ء مین شادی کے بندھن میں بند گے شادی کے چند مہینے کےبعد مزیداپنی تعلیم پیاس بجھانےکےلےدہلی چلے آئے 1855ءمیں پھر پانی پت لوٹ آئے آکربچوں کوپڑھانےکاکام کیا 1857ء غدر کی لڑائی میں جب حالات خراب ہوگے تو آپ نےگوشہ نشینی اختیارکی اور1861ء تقدیر نےپھردہلی کارخ کروایا جہاں قسمت نے آپ کوشیفتہؔ اورمرزاغالبؔ سےملوایا ان دونوں شاعروں کی وفات کے بعد آپ لاہور چلے آئے وہاں گورنمنت بک ڈپو میں ملازم ہوئے سرسید سے ملاقات ہوئی اس کی تحریک سے وابسط ہوئے آخری عمر میں حیدر آباد سے ادبی وظیفہ مقرر ہوا سرکاری ملازمت کو خیرآباد کہہ دیا پانی پت پھر لوٹ آئے ادبی سفر میں دل وجان سے مشغول رہے یہی پر ہی 31دسمبر 1914ء کو آپ اللہ کو پیارے ہوگے 
نوکروں پر سخت گیری کرنے کا انجام
Nukroo Par Sakhet Giri Karnay Ka Anjaam
ا۔ تشریح
ایک  آقا  تھا  ہمیشہ  نوکروں  پر  سخت  گیر
درگزر تھی اورنہ ساتھ ان کے رعایت تھی کہیں
سخت گیر:- چھوٹی سی باتوں پر سزا دینے والا ، رعایت:- نرمی ، کمی
قطعہ کے اس شعر میں حالیؔ نے ایک مالک اوراس کے غلا موں کا ذکر کیا ہے فرماتے ہیں کہ ایک امیر شخص تھا جو ہمیشہ اپنے نوکر چاروں پرسختی سے پیش آتا تھا مالک کے مزا ج میں نرمی اور رعایت کسی قسم کی سرے سے ہی موجود نہ تھئ
بے سزا کوئی خطا ہوئی نہ تھی اُن کی معاف
کام سےمہلت کھبی ملتی نہ تھی ان کے تئیں
تئیں:- لیے
حالی ؔ قطعے کے اس شعر میں ارشادفرماتے ہیں کہ مالک نوکروں کی کسی بھی غلطی کومعاف نہیں کرتا تھا بلکہ انھیں سزائیں دیتا تھا اور نوکر ہروقت کوئی نہ کوئی کام کرتے ہی رہتے تھے
حسن ِ  خدمت  پر  اضافہ  یا  صلہ  تو  درکنار
ذکر کیا، نکلے جو پھوٹے منہ سے اس کے آفریں
پھوٹے منہ سے:- بد دلی سے ، صلہ :- انعام
حالیؔ ارشاد فرماتےہیں کہ مالک کےغلاموں کو ہر وقت کا م پر کام کرنا پڑتا تھا کھبی فرصت کے دو لمحات میسر نہیں ہوپا تے تھے اور اچھے اچھے کام اور عمدہ محنت پر بھی کوئی انعام یا اجرت میں اضافہ نہیں کیا جاتا تھا مالک دو لفظ بھی محنت کرنے والے نوکر وں کے حق میں نہیں بولتا تھا
پاتے تھے آقا کو وہ ہوتے تھے جب اس سے دوچار
نتھنے پھولے منہہ چڑھا ، ماتھے پہ بل ابرو پہ چیں
دوچارہونا:- سامنا ہونا ، ملاقات ہونا، ماتھا:- چہرا، بل:- ماتھے کی شکن
حالیؔ فرماتے ہیں کہ جب کھبی مالک کے نوکرچاکر اپنے مالک کے سامنے آجاتے تھے اور مالک اُنھیں دیکھ کر ناخوش ہوتا تھا اوراس کے چہرے پر شکن کےنشان پڑجاتے تھے
تھی نہ جُز تنخواہ نو کر کےلئے کوئی فتوح
آگے ہوجاتے تھے خاین جو کہ ہوتے تھےامیں
فتوح :- کامیابی ، بالائی آمدنی ، خاین:- خیانت کرنےوالا ، بددیانت ،امیں:- امانت دار
حالی ؔ اس شعرمیں فرماتےہیں کہ مالک کے نوکروں کے لئے تنخوا ہ کے علاوہ باقی مراعاتیں نہ تھیں البتہ ان نوکروں میں جو کچھ چاپلوسی قسم کےتھے وہیں کچھ خود کومالک کے پاس جھوٹے امانت دار دکھا کرکچھ فائدہ مالک سے حاصل کرپاتے تھے
رہتا تھا اک شرائظ نامہ ہرنوکر کےپاس
فرض جس میں نو کر اور آقا کے ہوتے تھے تعیں
حالی ؔاس قطعہ کے اس شعرمیں مالک اورنوکروں کے مابیں ہونے والے معاہدےکا تذکرہ کرتے ہوئےفرماتےہیں کہ مالک اوراس کے نوکروں کےدرمیاں جو معاہدےہوئے تھے اس پر لکھا ہوا تھا کہ مالک کانوکروں پر کیا حق ہے اور نوکروں کو کیا فرائض انجام دینے ہونگے
گر رعایت کا کھبی ہوتا تھا کوئی خواستگار
زہر کے پیتا تھا گھونٹ آخر بجائے انگبیں
خواستگار:- طلب گار ، امیدوار، انگنیں:- شہد
حالیؔ کہتے ہیں کہ جب کوئی نوکرکام میں کوئی کمی یا تخفیف کا حق مانگتا تھا تو مالک نوکروںپر کوئی نرمی نہیں کرتا تھا جس کی وجہ سے نوکر شہد کھانے کے بدلے زہر کے پیالے گھونٹ گھونٹ کے پیتا تھا
حکم ہوتا تھا شرائط نامہ دکھاؤ ہمیں
تاکہ یہ درخواست دیکھیں واجبی ہے یا نہیں
واجبی:- درست ،ضروری ،ٹھیک
حالیؔ فرماتےہیں کہ جب کوئی نوکر کوئی رعایت کی مانگ کرتا تھا تو مالک حکم دیتا تھا کہ وہ نوکری کاشرائط نامہ دکھاؤ تاکہ یہ دیکھا جائے کہ آپ لوگوں کی فرمائش جائز ہے کہ نہیں ہے
واں سوا تنخواہ کے ، تھا جس کا آقا ذمہ دار
تھیں کُریں جنتی وہ ساری نوکروں کے ذمے تھیں
کُریں:- نقصانات
حالیؔ کہتےہیں کہ جب نوکروں کے ذریعے نوکری نامہ پیش کیا جاتا تھا تو وہاں صاف صاف لکھا ہوا ہوتا تھا کہ تنخواہ کے سوا مالک کی کوئی ذمہ داری نوکروں کے تئیں درج نہ تھی البتہ کام کرتے وقت اگر کسی چیز کا نقصان ہوجاتاتو اس کی بھرپائی نوکروں کو کرنا ہوگی
دیکھ کر کاغذ کو ہوجاتے تھے نوکرلاجواب
تھے مگر وہ سب کےسب آقا کےمار آستین
مارِ آستین:- چھپا ہوا دشمن ،دوست نما دشمن
حالیؔ فرماتےہیں کہ جب نوکر اپنےنوکری نامہ دیکھتے تھے تو دیکھ کر شرمندہ اورلاجواب ہوتے تھےاو ر اندرہی اندر دل میں مالک کے دشمن بن جاتے تھے
ایک دن آقا تھا اک منہ زور گھوڑے پر سوار
تھک گئے جب زور کرتے کرتے دستِ نازنیں
دستِ نازنیں:- کمزور ہاتھ
حالیؔ کہتےہیں کہ ایک دن مالک ایک دن تیز ترار گھوڑے پر سوار ہوا مگر بدقسمتی کی وجہ سے گھوڑابے قابو ہوگیا اور مالک کےدونوں ہاتھ لگام کھینچتے کھینچتے تھک جاتے ہیں
دفعتاََ قابو سےباہر ہوکے بھا گا راہوار
اور گرا اسوار صدر زیں سے بالائے زمیں
اسوار:- سوار، بالائے، زمیں:- زمیں کے اوپر
حالی ؔ بیان کرتےہیں کہ مالک جس گھوڑے پر سوار ہواتھا وہ اچانک بے قابو ہوجاتا ہے مالک کا پاؤں گھوڑے کے زین سے نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے مالک نیچے زمیں پر گر جاتا ہے
کی بہت کوشش نہ چھوٹی پاؤں سےلیکن رکاب
کی نظر سائیس کی جانب کہ ہو آکر معیں
معیں:- مددگار، سائیس:- گھوڑےکی خدمت اوردیکھ بھال کرنے والا
حالیؔ اس شعرمیں فرماتےہیں کہ اس مالک نے بڑی کوشش کی۔ کہ اُس کاپاؤں رکاب سے چھوٹ جائے مگر وہ اپنے پاؤں چھڑانے سےکامیاب نہ ہو سکا آخرگھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والوں سےکہا کہ میر ا پاؤں چھڑانے میں میری مدر کروں
تھا مگر سائیس ایسا سنگ دل اور بےوفا
دیکھتا تھا اور ٹس سےمس نہ ہوتا تھا لعیں
ٹس سے مس:- جنبش نہ کرنا ، لعیں:- لعنتی
حالی ؔکہتے ہیں جب مالک کا پاؤں رکاب پر پھنس جاتا ہے مگر نوکر اپنے مالک کی مدد کرنے کےلئے آگے نہیں آتے ہیں لیکن وہ لعنتی نوکر اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے رہے تھے اور وہ اپنے مالک کی کسی طرح سےمدد نہیں کرتےہیں
دور ہی سے تھا اُسے کاغذ دکھا کہ کہہ رہا
دیکھ لوسرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں
حالیؔ کہتے ہیں نوکر نے مالک کی پکار کی مدر پر کہا دیکھو صاحب اس ہمارے نوکر نامہ کے کاغذ کے شرائط میں آپ کی مدد اس طرح کرنا نہیں لکھا ہوا ہے
ب۔ توضیحات
قطعے کے لفظی معنی" ٹکرا " کے ہیں اصطاح شعر میں قطعہ غزل کی ہیت میں کہے گئے ان دو یا دو سے زیادہ اشعار کو کہتےہیں جو معنی کے اعتبار سے باہم مربوط ہوں اکثر شعراء غزل میں دویا اس سے زیادہ معنی کےلحاظ سےاسطرح مربوط کرتے ہیں کہ قطعہ بند کہلاتے ہیں 
اس قطعے میں حالیؔ نے ہمیں ماتحتوں اور نوکروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کی ہے نوکر بھی ہماری ہی طرح انسان ہوتےہیں اگر ہم ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں گےاوران کا خیال رکھیں گے تو وہ ہماری خدمت سچے دل سے کریں گے ہمارے صحیح معنوں میں وفادار ہوں گے ار اگر ان کی طرف ہمارارویہ غیر ہمدردانہ ہوگا رو ہمارا حشر بھی اس آقا سا ہوگا جس کا قصہ اس قطعہ میں بیان کیا گیا 
ج۔ سوالات
ا۔ یہ کہانی بیان کرنے سے حالیؔ کاکیا مقصد ہے؟
جواب: اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد حالیؔ کا یہ تھا کہ ایک امیر انسان کو اپنے نوکر و چاکروں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سےپیش آنا چاہیے اگر کبھی نوکروں سے کوئی غلطی یا چوک ہوجائے تو درگذر کرنا چاہیےنہ کہ سختی کرنی چاہیے کیوں یہ لوگ بھی ہماری ہی طرح انسان ہیں آج یہ اگر ہمارے ماتحت ہے تو کل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ہمارے کسی کام کو انجام دے گے جوہماری بس کی بات نہ ہوگی
ب۔ ہمیں اپنے ماتحتوں سےکس قسم کابرتاؤ کرناچاہیے؟
جواب- ہمیں اپنے ماتحتوں سے خوش خلقی اور حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے نہ کہ زور زبردستی سے، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بڑے پتھر کو بھی کھبی چھوٹے پتھر کی ضرورت پڑجاتی ہے
ج۔ اس قطعے میں جو کہانی بیان کی گئی ہے اسے اپنے الفاظ میں لکھیں؟
جواب: یہ شاندار وجاندار قطعہ"نوکروں پرسخت گیری کرنے کا انجام" مولانا الطاف حسین کی قلم کی نوک سےجنم پایاہےاس قطعہ میں شاعرایک مالک اوراُس کے نوکر وں کے احوال بیان کرتا ہے کہیں ایک مالک رہتا تھا جس کےکئی نوکر چاکر تھے دن ورات محنت کرنا ،نوکروں کےنصیب میں خدا نے ازل میں ہی لکھا تھا مگر ددوسری طرف اُن کی اِس اَن تھک محنت کومالک ہمیشہ نظر انداز کرتا تھا اچھے اورکٹھن کاموں میں انعام تو دور ، دد بول بھی خوشی کے ان کے حق میں نہ بولتا تھاکھبی جب نوکرمالک سے کرم کے واسطےکچھ مراعاتیں مانگتے تھے اُنھیں اُن کا نوکری کا وہ شرائط نامہ مانگا جاتا تھا جس پرصاف صاف اوربڑے بڑےحروف میں یہ لکھا ہوا درج تھا کہ مالک کی محض نوکروں کے واسطے صرف اتنی دمہ داری ہوگی کہ نوکروں کو صرف چندروپئے تنخوا ہ کے طور ادا کی جائےگی باقی اگر کھبی نوکروں کے ذریعے کام کرتے وقت مالک کا کچھ نقصان ہوجاتا تو اس کو سود سمیت بھرپائی نوکرکوکرنی ہوگی اتفاقاََ مالک ایک دن ایک شرارتی گھوڑے پر سوار ہوجاتا ہے جومالک سےبےقابو ہوجاتا ہے اور مالک کا پیر گھوڑے کی زین میں پھنس جاتا ہے جس پرمالک نوکروں کو چلاکرکہتا ہے کہ میرا پیر زین سے باہر نکالو اُس پرنوکرکہتے سرکار اِس کام کا معاہدہ نوکری کےشرائط نامہ کے کاغذپر نہیں لکھا ہواہےغرض جیسا بوئےگے ویسا ہی کاٹو گے
ر۔ مندرجہ ذیل اشعار کونثر میں بدل دیں
کی بہت کوشش نہ چھوٹی پاؤں سےلیکن رکاب
جواب۔ (نثر)مالک نےبڑی کوشش کی ۔ کہ کسی طرح سے اُ س کے پاؤں رکاب سےچھوٹ جائیں
کی نظر سائیس کی جانب کہ وہ ہوتا معیں
جواب: (نثر) مالک نے سائیس کی طرف نظرکی کہ وہ اُ س کی مدد کرے
تھا مگر سائیس ایسا سنگ دل اور بے وفا
جواب (نثر) مگر سائیس بہت بڑا بے وفا اورسنگ دل قسم کا انسان تھا
دیکھتا تھا اور ٹس سے مس نہ ہوتا تھا لعیں
جواب (نثر) وہ لعنتی نوکر مالک کا یہ حال دیکھ کر ٹس سے مس نہیں ہوا تھا
ہ۔ اُردو شاعری کی ایک صنف "قطعہ " پر نوٹ لکھیے؟
جواب: قطعہ کے لغوی معنی ٹکرےکےہیں لیکن ادبی اصطلاح میں قطعہ اس مسلسل نظم کو کہتےہیں جس میں ایک خیال یا ایک واقعہ دویا دوسےزیادہ اشعار میں اس طرح موزوں کیا گیا ہو کہ ہر شعر کا مطلب دوسرےشعر پرموقوف ہو قطعہ غزل کی ہیئت میں لکھےجاتے ہیں قطعہ کے اشعار کی تعدار کم از کم دو ہوتی ہے اورزیادہ سے زیادہ اشعار کی کوئی حد مقر ر نہیں ہے مطلع نہیں ہوتا البتہ قافیہ اور ردیف کاخیال بہرحال رکھا جاتا ہے قطعہ میں ہر قسم کے مضامیں بیان کئےجاتےہیں البتہ قطعہ کے اشعار مسلسل بیان ہونا لازمی ہےبقول ِ اختر انصاری " یہ ایک سمٹی ہوئی نظم ہے"
قطعہ کو پہلے پہل ایک الگ صنف کی طرح نہیں برتا گیا مگر غالبؔ، اکبرؔ 'اقبال وکئی اوردوسرے شعراء نے اس میں چارچاند لگائے تویہ صنف سنور کر نکھر کر سامنے آگئی اور اردوادب سے شوق رکھنے والوں کی پیاس آج بڑی شدت کےبجھا رہی ہے 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Advertisement